پاکستان کی ایک مشہور و معروف جامعہ میں ایک مسیحی طالب علم نے ہاسٹل کی مسجد کے امام صاحب کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔ تمام ہاسٹل کے لڑکے بھی کثیر تعداد میں جمع تھے۔ ابھی مبارکباد وصول کرنے کا سلسلہ جاری تھا کہ کچھ عجیب سی ہلچل محسوس ہونے لگی۔ ہوا کچھ یوں کہ اس مذہبی طور پر نوزائیدہ بچے کو مختلف مسالک کے لوگ اپنے اپنے عقیدے اور مسلک کی تبلیغ کرنے لگے۔ کسی نے 73 فرقوں کی حدیث سنا کر خود کو صراط مستقیم پر ہونے کا دعویٰ کیا اور کسی نے دوسروں کو کافر قرار دے کر خود کو جنت کا سند یافتہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ وہ بے چارہ گھبراہٹ کا شکار ہو گیا شاید وہ یہ بھی سوچ رہا ہو کہ اگر مسلمان بننے کے بعد بھی مجھے اپنی شناخت کے لیے کسی اور مرحلہ سے گزرنا تھا تو بہتر تھا کہ میں مسیحی ہی رہتا۔ افسوس! ابھی سانس تو لینے دیا ہوتا، کلمہ توحید حلق سے اترنے تو دیا ہوتا، ابھی ابھی تو میں نے دین اسلام میں آنکھ کھولی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے ایک پیدا ہونے والا بچہ پیدائشی طور پر مسلمان ہوتا ہے اور اگر اس کے بعد وہ کچھ بھی مزید بنتا ہے تو وہ کم از کم مسلمان نہیں ہوتا چاہے وہ سنی شیعہ بنے یا ہندو مسیحی۔ کیونکہ دین فطرت کو ترک کر کے خود کے لیے کوئی اور نام تفویض کرنے والا پھر مسلمان ہونے کا دعویٰ کیوں کر سکتا ہے؟ اس کی دینی دلیل دیکھیں تو قرآن میں فرمایا گیا “اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا” (سورہ الحجہ 78)۔ مسلمانوں کی نسبت جس نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہے ان کا تو کوئی مسلک نہیں تھا وہ تو خود کو مسلمان کہا کرتے تھے گویا کہ ہر وہ کام جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نہیں کیا خاص طور پر وہ جو امت کو تقسیم کرے یا پھوٹ ڈالے وہ بدعت کہلائے گا یا یوں کہیے کہ دین میں کسی بھی مضحکہ خیز اضافے کا نام بدعت ہے مگر ہم تو اتراتے ہیں اور فخر سے الحمدللہ کہہ کر بیان کرتے ہیں کہ میں سنی ہوں میں شیعہ ہوں یا ان دونوں کی کوئی برانچ ہوں۔ عقل و شعور کے تناظر میں پرکھا جائے تو ایک والد یا کوئی بھی سربراہ ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ میری اولاد، ماتحت لوگ، میرے پیروکار ایک ساتھ جڑ کر رہیں، ایک دوسرے سے محبت اور رواداری سے پیش آئیں، تفریق پیدا کرنے والے مسائل سے اجتناب کریں، یا پھر درگزر کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کریں نہ کہ اختلافات کو مزید پروان چڑھائیں اور اس کی بنا پر ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھیں اور کسی کے لیے جہنمی ہونے کا دعویٰ کریں۔
یہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے کبھی بھی خوشی کا موجب نہیں ہو سکتا بلکہ یہ تو تکلیف دینے کے مترادف ہے اسی تناظر میں حدیث پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ “میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ کے بعد آپ کی امت میں اختلاف پیدا ہوگا۔ میں نے پوچھا کہ پھر نجات کا راستہ کیسے ملے گا؟ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ اللہ کی کتاب! جس کے ذریعے اللہ ہر جبار کا سر توڑ ڈالیں گے جس نے اس کو پکڑ لیا وہ نجات پا گیا اور جس نے اس کو چھوڑ دیا وہ ہلاک ہو جائے گا۔ قرآن فیصلہ کن بات کرتا ہے” (کنزالعمال جلد اول صفحہ 96، شمار 1655 / ترتیب شریف جلد اول, صفحہ 186) ۔ گویا کہ امت کا تقسیم ہونا باعثِ پریشانی ہے اور اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو ایک بھی آیت ایسی نہیں ملتی جس میں فرقہ بندی کی ذرا سی بھی گنجائش موجود ہو بلکہ فرقہ بندی کا ذکر کرتے ہوئے قرآن میں فرمایا گیا۔۔۔ “کہہ دو کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ تم کو کوئی عذاب اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تم کو گروہوں میں تقسیم کر دے اور تمہیں ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے۔ دیکھو ہم کیسے کھول کھول کر اپنی آیات پیش کرتے ہیں تاکہ یہ سمجھ جائیں” (سورہ الانعام 65)۔
گویا کہ فرقوں میں بٹ جانا ایک عذاب ہے یا پھر یوں کہا جائے کہ جو لوگ فرقوں میں بٹ گئے اور اپنے اپنے مسلک کی نہ صرف ترویج کرتے ہیں بلکہ دوسروں پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں ان کے لیے عذاب ہے جیسا کہ فرمایا گیا۔۔۔ “اور ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنہوں نے فرقہ بندی کی اور اختلاف کیا اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح احکام آگئے تھے یہ وہ لوگ ہیں جنہیں عذاب عظیم ہوگا” (سورہ العمران 105)۔ مگر افسوس! نہ جانے کیوں ممبر پر بیٹھے مولانا صاحب بڑی فراخ دلی سے دوسروں پر نفرت کے وار کرتے ہیں اور اکثر اوقات وہ شخص بھی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ نہ ڈالو (سورہ العمران 103) کی آیت بیان کر رہا ہوتا ہے جو خود کسی مخصوص مسلک کا پرچار کرتا ہے۔ اتنا مردہ ضمیر کسی مومن کا بھی ہو سکتا ہے؟
حالانکہ قرآن میں فرمایا گیا “تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں اور اللہ کے ہاں بیزاری ہے اس بات سے جو تم کہو اور کرو نہیں”۔
تاریخ اسلام پر نظر دوڑائیں تو نہایت ہی جلیل القدر ہستیوں نے اپنا حق محض اس لیے چھوڑ دیا اور امت کو بڑی ہلاکتوں سے بچا لیا تاکہ امت کی یکجہتی پر کوئی آنچ نہ ائے اور زمین پر فتنہ و فساد برپا نہ ہو۔ مگر آج کے دین دار بلکہ دین کے ٹھیکے دار ہر وہ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے ان کی الگ پہچان ہو اور تفریق کا پہلو نمایاں ہو سکے۔ چاہے ٹوپی یا امامہ کے رنگ ہوں، داڑھی کا حجم ہو، یا الگ الگ مساجد ہوں یہاں تک کہ بغض و انتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ مساجد کے نام سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کس فرقہ کی مسجد ہے۔ کچھ نے تو باقاعدہ طور پر نوٹس اویزاں کر رکھا ہوتا ہے کہ اس مسجد میں فلاں مسلک کا داخلہ ممنوع ہے۔ اس سارے معاملے کا اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو تعلیم و عقائد کی کمزوری نمایاں ہوتی ہے جن کے پاس تھوڑا بہت علم ہے وہ بھی شعوری طور پر امت کو یکجا کرنے جیسے معاملات زیر بحث نہیں لاتے کیونکہ مذہبی کاروبار میں خسارے کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔
شیشے دلوں کے گردِ تعصب سے اٹ گئے
روشن دماغ لوگ بھی فرقوں میں بٹ گئے (تنویر سپرا)
اس کو اگر عمومی تناظر میں دیکھا جائے تو بنیادی طور پر مذہبی اور سیاسی رہنما (سوائے چند معتبر شخصیات کے) کبھی بھی نہیں چاہتے کہ لوگوں تک علم و شعور پہنچے کیونکہ اندھی تقلید کرنے والے باقی نہیں بچیں گے اور ان نام نہاد رہنماؤں کی پیروی کرنے والا کوئی نہیں ہوگا اسی وجہ سے کچھ عالم دین تو قرآن کا ترجمہ پڑھنے پر بھی قدغن لگاتے ہیں اور بے ڈھنگی دلیلیں دیتے ہیں حالانکہ قرآن سمجھنے کے لیے اتارا گیا ناکہ مُردے بخشوانے کے لیے۔ ذاتی فائدے اور انا کی خاطر قرآن و حدیث کو بھی یا تو اپنے مطلب کا رنگ دیا گیا یا پھر ادھوری بات اتنی پھیلا دی گئی کہ اب اصل حقیقت جھوٹی محسوس ہوتی ہے اور ہضم بھی نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں نا کہ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے۔ شاید اسی لیے قرآن میں فرمایا گیا “یہ فرقہ فرقہ نہیں ہوئے لیکن اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آچکا تھا آپس میں بغض و عناد کے سبب اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے رب کی بات مقررہ وقت تک کے لیے پہلے طے نہ ہو چکی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ ہو چکا ہوتا (سورہ الشوریٰ 14)۔
یہ سب کھیل محض ایک حدیث کو بیان کر کے رچایا گیا جس کی سب نے مرضی کی تشریح کی اور اس سے جڑی باقی احادیث اور آیات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا حدیثِ مبارکہ صلی اللہ علیہ ہ وسلم کچھ یوں ہے کہ “بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی اور ایک جماعت کو چھوڑ کر باقی سب جہنم میں جائیں گے صحابہ نے عرض کیا یہ کون سی جماعت ہوگی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے (ترمذی 2641)۔ انہی الفاظ کے ساتھ ایک اور حدیث میں فرمایا گیا کہ 73 میں سے ایک جنت میں جائے گا اور یہی “الجماعت” ہوگا (ابو داؤد 4597)۔ گویا کہ جو جماعت کی صورت میں یکجا رہیں گے نہ کہ خود کے لیے الگ الگ نام مختص کر لیں گے اور زمین میں فتنہ پیدا کریں گے جیسا کہ حدیث مبارکہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کہ “اللہ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا” (ترمذی 2167)۔ مگر ہوا یہ کہ جس حدیث کو امت کی گمراہی اور تباہی کے طور پر بیان کیا گیا ہم نے اسے حکم مان کر خود کو تقسیم کر لیا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ اللہ نے قرآن پاک میں انسان کو ناشکرا قرار دیا اب کوئی شخص اس آیت کی بنا پر شکر کرنا چھوڑ دے کیونکہ اللہ نے فرما دیا کہ انسان تو ہے ہی ناشکرا۔ شاید اسی لیے اقبال نے فرمایا تھا۔
ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں
اُمّتی باعثِ رُسوائیِ پیغمبرؐ ہیں (اقبال)
تمام تر قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ فرقہ پرستی کی دین میں بالکل گنجائش نہیں ہے بلکہ یہ ایک عذاب ہے اور رب کی ناراضگی کا باعث و علامت ہے اس فرقہ پرستی کی آڑ میں ہزاروں مسلمان اپنی جانیں بھی گنوا چکے ہیں جس میں مرنے اور مارنے والے دونوں مسلمان ہیں۔ یہ تو اسلامی تعلیمات نہیں ہیں۔ اب اس فتنہ سے بچنے کا حل یہی ہے کہ ان فرقوں اور گروہوں سے لا تعلقی اختیار کی جائے اور ہر اس عمل سے بچا جائے جو تقسیم کا باعث بنے یا مسلک کی آڑ میں انتہا پسندی کو فروغ دے۔ اس سے بچنے کا حل قرآن نے کچھ یوں بیان کیا ہے۔ “بے شک جن لوگوں نے اپنے دین میں فرقے بنائے اور گروہوں میں بٹ گئے تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے پھر وہ ان کو بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے” (سورہ الانعام 159)۔ گویا کہ فرقوں سے کنارہ کشی اختیار کی جائے اور اختلافی پہلوؤں کو دین کی بنیاد نہ سمجھا جائے۔
داڑھی کا حجم کتنا ہو؟ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نور ہیں یا بشر؟ یا محمد کہنا جائز ہے یا نہیں؟ اور بہت سے فقہی مسائل جن کی غلط تشریحات کی گئی ہیں۔ ان سب معاملات پر یا تو خاموشی اختیار کی جائے یا ان سے کنارہ کشی کی جائے۔ خود مطالعہ کرنے کی عادت بنائی جائے تاکہ صحیح پہلو واضح ہو سکے اور جہاں ضروری ہو کسی جید عالم سے رہنمائی لی جائے۔ پھر اس کے بعد بھی ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے عقائد اور طریقہ کار کی بنا پر دوسروں کے لیے بغض و نفرت نہ پالیں بلکہ محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے ہر وہ طریقہ اپنایا جائے جو اتحاد بین المسلمین کے نظریہ کو پروان چڑھا سکے نہ کہ اس بھڑکتی آگ میں مٹی کے تیل کا کام کرے۔۔۔
منفعت ایک ہے، اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہے سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک،
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں (علامہ اقبال)